عید عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’بار بار لوٹ کر آنے والا دن‘ ہے۔ چونکہ خوشی و مسرت کے یہ مواقع ہر سال آتے ہیں اس لئے انہیں عید کہا جاتا ہے۔ لفظِ عید قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا میں استعمال ہوا ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے مطالبہ پر بارگاہِ ایزدی میں درخواست کی تھی: ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘ (المائدة، 5: 114)
اس آیت میں حصولِ نعمت کے دن کو عید سے تعبیر کیا گیا ہے جو خوشی و شادمانی سے عبارت ہے۔ اَقوام و اَدیانِ عالم کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ ہر مذہب و ملت میں چند ایسے تہوار ہوتے ہیں جو لوگوں کو ایسے مواقع مہیا کرتے ہیں جن میں وہ اجتماعی طور پر اظہار مسرت کرسکیں۔ ان تہواروں میں عموماً بعض مذہبی رسومات کے علاوہ کھیل کود اور تفریحی پروگرام ہوتے ہیں۔ مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بعض اوقات اظہارِ مسرت میں سماجی روایات اور اَخلاقی حدود کی بھی پروا نہیں کی جاتی اور خوشی و مسرت کے حصول اور فخر و مباہات کے اظہار کے لئے ہر طریقہ روا سمجھا جاتا ہے۔
اَہلِ اِسلام کے لئے دو قومی تہوار مقرر کئے گئے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ عید الفطر شوال کی یکم تاریخ کو آتی ہے اور عید الاضحی ذوالحجہ کی دس تاریخ کو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کے وقت مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو سالانہ دن مقرر تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کیا دن ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ ہمارے جاہلی دور کا رواج ہے، ان دنوں میں ہم خوشی مناتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطا کئے ہیں۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحی۔‘ (سنن ابی داود)
عیدین کے ان تہواروں میں جاہلی دور کی رسوم اور غیر سنجیدہ کھیل کود کی جگہ مہذب خوشی اور سنجیدہ تفریح شامل کردی گئی۔ اسلام نے اگرچہ ایک حد تک ان دونوں مواقع کو خوشی و شادمانی کے دن قرار دیا لیکن دیگر اقوام کے برعکس دنیاوی جشنِ مسرت کی بجائے مسلمانوں کو یہ دن یومِ تشکر اور تجدیدِ عہد کے طور پر منانے کا تصور دیا۔
عید الفطر کا دن رمضان المبارک کی عظیم نعمت کے عطا ہونے اور رضائے الٰہی کی خاطر روزے رکھنے کی توفیق میسر آنے پر اظہارِ مسرت اور سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے مقرر کیا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:
’’اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘ (البقرة، 2: 185)
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ رب العزت نے تمہیں اپنی اطاعت کی راہ پر گامزن ہونے کی جو توفیق بخشی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو۔ گویا شکریہ کے طور پر اس کی کبریائی بیان کرنا اور اظہارِ عبودیت کرنا اس دن کی حکمت اور بنیاد قرار دیا۔
عید الاضحی کا معنیٰ قربانی کی عید ہے اس دن مسلمان اپنے رب کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرتے ہیں۔ یہ دن دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کے واقعہ کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن جانوروں کی قربانی کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ لوگوں میں ایثار و قربانی کی روح زندہ رہے۔ جانور کی قربانی کے وقت زبان سے دہرائے جانے والے یہ الفاظ بھی اس کی روح کے ترجمان ہیں:
’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ (الأنعام، 6 : 162)
عید الاضحی کی صبح دوگانہ ادا کرنا اور جانور ذبح کرنا دونوں عمل دراصل اسی حقیقت کے مظہر ہیں۔ نماز اور قربانی دونوں خود سپردگی کا عہد ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے مفادات، مصلحتوں اور نفسانی خواہشات کو قربان کردینے کا عزم ہیں۔
عیدین کی دوگانہ نماز جہاں اللہ عزوجل کی نعمت کا شکرانہ اور تجدید عہد وفا ہے وہاں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا اکھٹے معبود حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور نماز کی ادائیگی کے بعد باہم گلے ملنا اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینا مسلمانوں کی یک جہتی، باہمی محبت اور شوکتِ اسلام کا بے مثال عملی مظاہرہ ہے۔
عیدین عطائے ربانی اور فضل یزدانی کے دن ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اور لطف و کرم سے وہی سرفراز ہوتا ہے جو ان ایام کو مناتے ہوئے اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیماتِ نبوی کو پیش نظر رکھتا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں عیدین کی فضیلت اور ان کے مسائل کا بیان ہوا ہے۔ عیدین کی نماز کا طریقہ اور وقت بیان کیا گیا ہے۔ صدقہ فطر اور قربانی کے فضائل و مسائل بیان ہوئے ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خوشی کے ان لمحات میں غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کو کیسے شامل کیا جائے۔ ان تمام امور سے ہر مسلمان کا واقف ہونا ضروری ہے۔ یہ مسائل اگر چہ صحاح ستہ اور احادیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں مگر اس وسیع ذخیرہ احادیث تک رسائی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کو جنہوں نے ان احادیث تک رسائی اور ان سے استفادہ کی راہ آسان کردی۔
زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کی کتاب ’جامع السنۃ‘ کے ایک باب کی منتخب احادیث پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب عیدین کے موضوع پر ایک شاندار اربعین ہے جس کی ترتیب و تخریج اور ترجمہ میں معاونت کی سعادت فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیو ٹ کے فاضل محققین محمد علی قادری اور محمد حامد الازہری کے حصہ میں آئی ہے۔ اللہ عزوجل جناب شیخ الاسلام اور ان کے معاونین کی خدمتِ حدیث کے سلسلہ میں کی گئی اس کوشش کو سعی مشکور بنائے اور تمام اہلِ اسلام کو اس کتاب سے کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطافرمائے۔