Mubadiat-e-‘Aqida Tawhid

  • In Stock

  • 0 Review(s)

    Rating
    0.0 average based on 0 reviews.

    5 star
    0
    4 star
    0
    3 star
    0
    2 star
    0
    1 star
    0

Price :

Rs140

Product SKU: BD-0027

Author Shaykh-ul-Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri
Language Urdu
Pages 64
Binding Card
Paper Quality Faling
Weight 84 (G)
Dimensions 8.5*5.5
Date Publication November 30, 2022

دینِ اسلام کے منجملہ امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دین بیک وقت عقائد و اعمال (beliefs & practices) کا مجموعہ ہے۔ ان دونوں کے فعال اور متحرک رہنے میں ہی اسکی بقاء اور تسلسل کا انحصار ہے۔ عقائد کو اصول الدین، ایمانیات اور علم الکلام کہا جاتا ہے جبکہ اعمال کو ارکانِ اسلام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یہ علم الفقہ کا موضوع ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کا باہمی ربط و تعلق بالکل وہی ہے جو انسانی شخصیت میں روح اور جسم کا ہے۔ اول الذکر کا موضوع انسان کے باطنی احساسات جذبات اور نیت کے احوال ہیں جبکہ دوسرے کا موضوع تعبدی، تشریعی اور عائلی و سماجی اعمال ہیں اور ایمان ان دونوں دھاروں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔
اعمال کے مقابلے میں عقائد کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہ بنیاد اور جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے بنیاد کے بغیر عمارت کا تصور محال اور جڑ کے بغیر درخت کی زندگی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر علوم و فنون کی طرح علم الکلام میں بھی نمایاں شخصیات نے حسب موقع و ضرورت خدمات سر انجام دیں اور ملت کو معاصر فتنوں کی زد سے بچائے رکھا حتی کہ اسی نظریاتی و اعتقادی محاذ پر لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ بارہ سو سالہ عروج کے بعد مجموعی زوال کا شکار ہونے والی امتِ مسلمہ کی ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسے دائمی زوال سے ہمکنار کرنے کے لئے بنیادی عقائد میں تشکیک و ابہاممیں مبتلا کر دیا گیا۔ عالم اسلام میں بالعموم اور برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص مسلکی تنازعات اور باہمی مذہبی منافرت نے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ کسی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں۔ اسی منفی روئیے نے عالم اسلام کا دامن علم و تحقیق کے حقیقی جو ہر سے محروم رکھا اوریہی رجحان ملت کی سیاسی تمکنت کا دشمن ثابت ہوا ۔ شو مئی قسمت کہ امت جن عقائد و اعمال کی موشگافیوں میں اُلجھ چکی ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اعتقادی اختلافات کے ساتھ ہے جن کے حل میں تحمل اور بردباری سے زیادہ جذباتی اور مجادلاتی عنصر رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسی رجحان نے مختلف مسلکی گروہوں کو بھی جنم دیا ہے جو اب صبر وتحمل اور تحقیق و تفتیش کی ساری حدوں کو عبور کرکے باہمی قتل و غارتگری پر اتر آئے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کو مباح قرار دے دیا گیا ہے۔

عقیدئہ توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پرایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہواجب توحید اور رسالت میں مغائرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیصِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیانِ اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلوؤں پر مرتکز ہوئیں تو اسکے دو نقصانات ہوئے ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ سکڑ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئے۔

اس ضمن میں دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے جو انسان کو دو عالم کے خوف و غم سے بے نیاز کرکے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ یہ تو ایک نورِ باطن ہے جسے عبادت، ریاضت اور ذکر و فکر سے جِلا ملتی ہے پھر اس نورِ توحید کا حامل انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا چلتا پھرتا مظہر بن جاتا ہے وہ تقریروں، وعظوں اور مناظروں سے توحید کی تعلیم نہیں دینا بلکہ اس کی گفتار اور اس کا کردار توحید کی گواہی دیتا ہے۔ انہیں ملنے والا اور ان سے ہمکلام ہونے والا اپنے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور قربت محسوس کرتا ہے اور بالآخر بندہ واصل بحق ہوجاتا ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ ایسے مست الست بندگانِ الٰہی قیامت میں بھی اسی شان استغناء سے ہمکنار ہوں گے۔ 

دورِ زوال بوجوہ میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال اور مناظروں کا موضوع بن گئی تو ’’موحدین‘‘ کی طبعیت میں ترشی‘ کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مودت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت‘ کرختگی اور غیر لچکدار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور ردِ عمل میں ہونے والے مناقشات بذاتِ خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکے ہیں۔ حالانکہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی مدلل اور گرجدار آواز اُبھری جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیئے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ’’طوفان‘‘ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیصِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گے۔

زیرِ نظر کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’’کتاب التوحید‘‘ کے دو ابواب پر مشتمل ہے۔ ’کتاب التوحید‘‘ شیخ الاسلام کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے جو آپ کی براہِ راست نگرانی میں مرتب کیے گئے۔ یہ وہ کامیاب الہامی کاوش ہے جس نے توحید اور رسالت کے باہمی ربط و تعلق کو نہایت خوبصورتی سے اہل دانش و بینش کے سامنے رکھا ہے۔

فہرست

🔹 باب اَوّل - توحید اور تصورِ شرک کی بنیادی توضیحات
🔹 توحید کا لغوی معنی
🔹 توحید کا شرعی و اصطلاحی مفہوم
🔹 شرک کا لُغوی معنی
🔹 شرک کا شرعی اور اصطلاحی مفہوم
🔹 اُمتِ مسلمہ شرک سے محفوظ ہے
🔹 توحید و شرک کے باب میں چند اہم نکات
🔹 باب دُوُم - توحید اور شرک کی متقابل اَقسام
🔹 توحید کی اقسام
🔹 شرک کی اقسام
🔹 ثبوتِ شرک کے لئے نفئ توحید کی بالصراحت ضرورت ہوتی ہے
🔹 مبادیاتِ الہٰیات کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے
🔹 تضاد کے تعیّن کا منہاج
🔹 توحید اور شرک کے تعیّن کا منہاج
🔹 تعین
🔹 تضمن
🔹 حدودِ صحت
🔹 اِمتیاز
🔹 توحید اور شرک میں بُعد المشرقین


Ratings & Reviews

0.0

No Review Found.


To Review


Delivery All Over Pakistan
Ships from Lahore
Standard Delivery - (3-6 working days)
  1. Pakistan Post Office
  2. Leopard
Get Free Shipping (*Over Rs. 4000)
Enjoy delivery of your order directly to the doorstep!
Cash on Delivery Available