ایمان کسی بات کو صدقِ دل سے ماننے، جاننے اور پہچاننے کا نام ہے۔ جب تسلیم و قبولیت اپنے درجۂ کمال کو پہنچتی ہے تو یقین کی منزل حاصل ہوتی ہے۔ درحقیقت اَہلِ یقین ہی ’حقیقی ایمان والے‘ کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں۔ یقین کے درجے پر فائز شخص کو اس مقام کی حفاظت کے لیے بہت سی مشکلات، مصائب اور امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان لرزا دینے والے حالات میں ڈٹے رہنا ہی اِستقامت کہلاتا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق کا راستہ بہت کٹھن ہوتا ہے اور قدم قدم پر اَہلِ حق کو دل دہلا دینے والے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات میں عزم و اِستقامت سے ڈٹے رہنا ہی اَہلِ حق کا امتحان ہوا کرتا ہے۔ اَہلِ حق ایمان، یقین اور اِستقامت کے نسخۂ کیمیا کے ذریعے اپنی منزلِ مقصود کو پا لیتے ہیں۔ یہی پیغام اس تصنیف کا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، انقلابیوں کو مایوسی کا شکار ہو کر اپنی قوت کو بکھرنے نہیں دینا چاہیے بلکہ ایمان، یقین اور استقامت کی مدد سے اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔ بالآخر فتح حق کی ہوتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب سرزمینِ پاک پر مصطفوی پھریرا لہرائے گا اور چار دانگِ عالم اِس مشن کا آفتاب جگمگا رہا ہوگا۔ (اِن شاء ﷲ عزوجل۔)