اسلام دین فطرت اورمکمل ضابطہ حیات (Complete code of life) ہے، اس کی آفاقی تعلیمات ابدی اور دائمی ہیں۔ قرآن آسمانی ہدایت کا آخری سرچشمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے آخری الہامی کتاب ہے۔ یہ ایک ایسا مینارہ نور ہے جو قیامت تک زندگی کے ہر ہر گوشے کو منور کرتا رہے گا۔ کلام الہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوا، زبان مقدس سے جاری ہوا اور آپکی حیات مقدسہ قرآن کی عملی تفسیر ہے، اس لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جیتا جاگتا قرآن بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن اور صاحب قرآن تمام علوم کا منبع ہیں۔
روشنی علم کی جمالیاتی تفسیر کا نام ہے۔ آقائے دو جہاں کا فرمان ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ بھی اس حقیقت کی طرف لطیف اور بلیغ اشارہ ہے کہ تعلیمات قرآن تک رسائی واسطہ رسالت کے بغیر ممکن نہیں۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادت گزار گروہ میں بیٹھنے کی بجائے علم کا نور حاصل کرنے والوں اور علم کا نور بانٹنے والوں میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔
صحیفہ انقلاب میں بے شمار آیات مقدسہ علم کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں علم کی فضیلت کے بارے میں سینکڑوں احادیث مبارکہ منقول ہیں۔ عہد نبوی سے خلفائے راشدین تک اور پھر آنے والی صدیوں میں ہمارے اسلاف نے علمی میدان میں جتنا کام کیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یورپ اُس وقت تاریک ادوار (Dark ages) میں سے گزر رہا تھا جبکہ قرطبہ کی بنیادوں سے علم و ہنر کی کرنیں پھوٹ کر چار دانگ عالم کو منور کر رہی تھیں۔ سقوط بغداد کے وقت تاتاریوں کی بربریت سے دجلہ کا پانی سرخ اور پھر کتب خانوں کو دریا برد کرنے سے سیاہ ہوگیا تھا۔ آج ہمارے علمی اثاثے یورپ کی لائبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے انگریزی تراجم میں مغربی مفکرین نے علمی خیانتوں اور فکری مغالطوں کی بھر مار کی ہے تاہم وہ اپنے تمام تر تعصب کے باوجود ہمارے اہل دانش کی عظمت اور ان کی علمی وجاہت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ (مسلمانوں کی علمی تاریخ سے آگاہی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شہرہ آفاق تصنیف مقدمہ سیرت الرسول کے باب ششم کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔)
ہمارا دین سراپا علم، ہمارے رسول معلم اعظم اور ہماری تاریخ عظیم علمی کارناموں کی امین ہے۔ ہماری علمی تاریخ جتنی اعلیٰ اور ارفع ہے، ہم اسی قدر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت علمی بے عملی کی راکھ میں دفن ہوچکی ہے۔ جہالت کی تاریکی کو ہم نے اپنا مقدر بنالیا ہے۔ وہ مسلم امہ جس کی ابتداء علم اور انتہا بھی علم ہے اس وقت جاہلوں میں سرفہرست ہے اور تعلیمی پسماندگی کے جہنم میں جل رہی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ مادی اور روحانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پورے عالم اسلام میں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے، ہمارے زوال و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ علم کی مشعل ہمارے ہاتھ سے چھن چکی ہے۔
ان حالات کے تناظر میں نابغہ عصر، مفکر اسلام، مفسر قرآن قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملت کے اس مرض کی درست تشخیص (Real Diagnosis) کرتے ہوئے فروغ علم کے لئے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے۔ غیر سرکاری (N.G.O)سطح پر یہ پوری دنیا میں فروغ علم کاسب سے بڑا منصوبہ ہے۔ قائد تحریک اپنے کارکنان کے ساتھ قریہ قریہ، بستی بستی، شہر شہر اور ملک ملک علم کے چراغ روشن کر رہے ہیں اور شعوری بیداری کو ہر آنگن کا مقدر بنا رہے ہیں۔ جہالت کے اندھیروں کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور وہ ہر سطح پر جہالت کے اندھیروں کے خلاف مصروف جہاد ہیں۔
اسلام کا تصور علم ایک متعدد الجہات (Multi Dimensional) موضوع ہے۔ یہ موضوع ایک ایسے بحر بے کراں کی مانند ہے جس کے تمام گوشوں کا احاطہ اس مختصر سے کتابچے میں ممکن نہیں تاہم کوشش کی گئی ہے کہ اجمالاً ہی سہی موضوع کے تمام پہلوؤں کو سمیٹا جائے۔ زیر نظر کتابچہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایک خطاب سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس خطاب میں آپ نے سورہء علق کی پہلی پانچ آیات کے حوالے سے اسلام کے تصور علم، مقصد علم، نصاب علم، نتیجہ علم اور وسعت علم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہی قرآنی تصور مصطفوی انقلاب کے عوامی تعلیمی منصوبے کا بنیادی پتھر ہے۔
فہرست کتاب
🔹 علم کی تعریف
🔹 ارکان علم
🔹 تصور علم سورہ علق کی روشنی میں تصور علم کے چھ عنوانات
🔹 تصور علم اور مقاصد علم
🔹 علم اور معرفت الہی
🔹 مقصد کے اعتبار سے علوم کی تقسیم
🔹 نصاب علم
🔹 قرآن مجید اور دیگر علوم میں فرق
🔹 مرتبہ علم نبوت
🔹 ذرائع علم