کامیاب زندگی کے بہترین لائحہ عمل پر مبنی اِس کتاب میں نوجواں مسلم نسل کو اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کام کاج کرتے، اپنے نجی اور معاشرتی معاملات میں اِسلام کی تعلیمات کو عمل میں ڈھالنے کیلئے کچھ آداب کا ذخیرہ اِس اُمید کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ شاید موجود نسل اِس دَورِ زوال کی آخری نسل ہو اور یقیناً آغازِ عروج کا سبب بننے والی نسل کے اَخلاق و کردار اَعلیٰ اَوصاف کے حامل ہوں گے۔
یہ کتاب بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کیلئے بھی یکساں مفید ہے۔ بچے ہمیشہ بڑوں کی پیروِی کرتے ہیں، اِس لئے اگر والدین اِن آدابِ زندگی کو اپنا لیں تو اُن سے متاثر ہو کر اُن کے بچے بھی اِن اچھی عادات کو آسانی کے ساتھ اپنا سکیں گے۔ اَللہ ربّ العزت ہم سب کو اِس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین
مقصدِ کتاب
اَچھی عادات کو بچپن سے ہی بچوں کے دِلوں میں راسخ کر دیا جائے تو وہ بچے بڑے ہو کر عظیم اِنسان بنتے ہیں، کیونکہ جو عادتیں بچپن میں پختہ ہوجاتی ہیں وہ ساری زندگی غیراِداری طور پر برقرار رہتی ہیں۔
اِنسان بچپن میں جو عادتیں اِختیار کرتا ہے وُہی بڑے ہوتے ہوتے پختہ ہو کر اُس کا کِردار بن جاتی ہیں۔ ہمارا کِردار ہماری عادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ بچوں کی عادات میں والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول کا گہرا اَثر ہوتا ہے۔ کسی معاشرے میں بسنے والے لوگ اگر اپنا اِنفرادی کردار بہتر کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو اُس کے نتیجے میں بہتر قومی کردار کا تعین ہو پاتا ہے۔ قومیں اِسی راستے سے ترقی کی منازِل طے کرتی ہیں۔
کامیاب ہونے کیلئے صرف دولت کافی نہیں ہوتی، کامیابی میسر وسائل کے بہتر اِستعمال کا نام بھی نہیں ہے، اَصل کامیابی اُس اَخلاق و کردار کا نام ہے، جو اَفراد کے مزاج سے شروع ہو کر پوری قوم کے مزاج کو تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔
پاکستانی قوم کرۂ ارض کے اَیسے بہترین خطے میں بستی ہے، جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اِس کے باوُجود یہ قوم اپنے زوال و اِنحطاط کی گہرائیوں میں بھٹک رہی ہے۔ اِس بےتوقیری کا سب سے بڑا سبب قومی سطح کی بےکِرداری ہے۔ اَقوام کا کردار اَفراد کے کردار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس قوم کے اَفراد کی اکثریت بےکردار ہو وہ ایک باکردار قوم بن کر نہیں اُبھر سکتی۔ اَقوامِ عالم کے درمیان ذِلت اُس کا مقدّر بنی رہتی ہے۔ تاوقتیکہ وہ اپنی اگلی نسل کی بہتر کردارسازی کو اَہمیت دے کرنہ صِرف گھروں بلکہ درسگاہوں میں بھی ایسا نظامِ تعلیم و تربیت نافذ کرے جو بچوں کو اَعلیٰ کردار سے مزیّن کرسکے۔ نسلوں کے تسلسُل سے قوموں کو عُروج یا زوال ملتا ہے۔ ہم آج نئی نسل پر جو محنت کریں گے اُس کا نتیجہ 20سال بعد دُنیا دیکھے گی۔
اِس کتاب میں نئی نسل کی بہترین کردار سازی کیلئے حضور نبی اَکرمﷺ کی عمرِمبارک کی نسبت سے 63 آداب پیش کئے جا رہے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں پر ذرا سی توجہ دیں اور نَوعُمری میں ہی روزانہ کی بنیاد پر اِس کتاب کے چند صفحات بچوں کو پڑھانا شروع کر دیں تو وقت کے ساتھ ساتھ اُن کے کردار میں اَیسی مثبت تبدیلیاں آنے لگیں گی جو قومی سطح پر ایک بڑی تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
آدابِ زندگی سے کیا مراد ہے؟
دینِ اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جونہ صرف اِیمان و عبادات بلکہ اَخلاق و آداب اور معیشت و سیاست سمیت تمام دُنیاوِی معاملات کے حوالے سے بھی اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
حُسنِ اَخلاق کا اَعلیٰ معیار اَدب کہلاتاہے۔ فقہِ اِسلامی کی رُو سے بعض آداب فرض اور واجب کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ باقی سنت اور مستحب کے درجہ میں آتے ہیں، یوں آدابِ زندگی کا دائرہ فرض، واجب، سنت اور مستحب پر اچھے طریقے سے عملدرآمد اور حرام، مکروہ اور مشتبہ سے اِجتناب تک وسیع ہے۔
آدابِ زندگی سے مراد یہ ہے کہ بندۂ مومن اپنی ساری زندگی اِسلام کے عطاکردہ طرزِ حیات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے۔ اَپنے ذاتی معاملات کو بھی اچھے طریقے سے سرانجام دے اور معاشرتی معاملات میں بھی اِسلام ہی سے رَہنمائی لے اور دُوسروں کے حقوق بہترین انداز میں اَدا کرے۔
آدابِ زندگی کیوں ضروری ہیں؟
رُوحانی پاکیزگی کے حصول کیلئے جہاں اِیمان پہلی شرط ہے، وہیں آدابِ زندگی بھی بہت اَہمیّت رکھتے ہیں۔ اچھا مؤمن وُہی ہوتا ہے جس کے اِیمان کے نور سے اُس کے اَعمال منوّر ہوں۔ عمل سے عارِی اِیمان رُوح کو وہ پاکیزگی نہیں دے سکتا کہ جس کے ذریعے ہم موت کے بعد بآسانی جنت کی طرف واپس جا سکیں، یہی وجہ ہے کہ اِیمان والوں کو قرآن و حدیث میں باربار نیک اَعمال اور اَچھے اَخلاق و آداب اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
اَچھی سوچ اَچھے اَعمال کو جنم دیتی ہے اور اَچھے اَعمال جب ہماری عادات بن جاتے ہیں تو پھر پختہ ہو کر وُہی عادات ہمارا کِردار بن جاتی ہیں؛ اور ہمارا کِردار ہمارا اَصل مقدّر ہوتا ہے۔ گویا بِالواسطہ طور پر ہماری سوچ اور فکر ہی ہمارے مقدّر کا تعین کرتی ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم رُوحانی پاکیزگی کے حصول کیلئے اپنی زندگی اَللہ ربّ العزت کے دیئے ہوئے ضابطۂ حیات سے اَخذ کردہ آداب کے مطابق گزاریں تاکہ ہمارے جسم و رُوح دونوں پاکیزہ ہوں اور موت کے راستے جنت تک ہمارا سفر آسان ہوسکے۔