زیرنظر کتاب ’’حقیقت تصوف ‘‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی انقلاب آفرین تصنیف ہے جس میں آپ نے تصوف، اسلامی معاشرے میں اس کی اہمیت اور مقام، دینی، معاشرتی، سائنسی اور دیگر حوالوں سے اس کی ضرورت اور آج کے پرفتن دور میں اسلام کے روحانی نظام کی ضرورت کو نہایت مدلل انداز میں بیان کیاہے نیز تصوف پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب دے کر اس علم کو اپنے حقیقی مقاصد کے آئینے میں دکھایا ہے۔ بقول ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری فطری ہٹ دھرمی اور تعصب کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تصوف پر بے بنیاد اعتراض کرنے والوں کی تشفی کیلئے اس وقت اس سے بڑھ کر کوئی کتاب اتنی ثقہ اور مدلل نہیں۔
کتاب ہذا کل چھ ابواب پر مشتمل ہے جبکہ ابتداء میں بہت شرح و بسط کے ساتھ مقدمہ درج ہے جو کہ تین فصول پر مشتمل ہے۔ پہلا باب تصوف کے معنیٰ و مفہوم پر مشتمل ہے۔ اس میں مکمل تفصیل کے ساتھ تصوف کی لغوی تحقیق کی گئی ہے یہاں ‘‘ تصوف‘‘کے مادہ ہائے اشتقاق کے بارے میں چھ اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ باب دوم تصوف کی اصطلاح کا پس منظر اور رواج کے موضوع پر ہے جس میں شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ چونکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دور صحابہ رضی اللہ عنہا میں تصوف کی اصطلاح کا باقاعدہ وجود نہیں ملتا۔ اس لئے عصر حاضر کے بعض علمی حلقوں میں تصوف کے بارے میں ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ تصوف بنیادی طور پر عجم سے درآمد شدہ فلسفہ روحانیت ہے اور تصوف کو بدعت خیال کرتے ہیں۔ موصوف نے اس سلسلے میں نہایت مدلل بحث کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ علمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تفسیر، حدیث اور فقہ سے متعلق ہزاروں اصطلاحات جو فی زمانہ مروج اور مستعمل ہیں اور جنہیں ہر دور کے اہل علم اور صاحبان فکر و نظر بلاتکلف استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں وہ اکثر و پیشتر دور مابعد نبوت کی پیداوار ہیں۔
باب سوم مطالعہ تصوف کی علمی اور دینی ضرورت کے موضوع پر ہے جس میں شیخ الاسلام مدظلہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ مطالعہ تصوف، فہم تصوف اور تعلیمات تصوف پر عمل کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ آیا تعلیمات تصوف کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونا دین اسلام پر کاملاً عامل ہونے کیلئے ضروری ہے۔ اس فلسفہ کو اپنائے بغیر ایک کامل مسلمان کی سی زندگی نہیں گزاری جاسکتی؟ اس حوالے سے آپ نے تصوف کی ضرورت و اہمیت کو تین جہات سے آج کے معاشرے کے لئے ثابت کیا ہے۔ چوتھا باب مطالعہ تصوف کی عملی و اخلاقی ضرورت کے موضوع پر ہے۔ جس میں شیخ الاسلام مدظلہ نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ اسلام کا مقصد ہی روئے زمین پر ایک صالح اور مثالی معاشرہ قائم کرنا ہے۔
پانچواں باب ’’مطالعہ تصوف کی اعتقادی اور سائنسی ضرورت‘‘ پر مشتمل ہے۔ ہماری مذہبی و دینی زندگی میں اعتقاد، علم اور عمل اگر باہم سازگاہوں تو ایسی زندگی متوازن کہلائے جانے کے لائق ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان تینوں اساسات میں اختلاف پایا جاتا ہے جس سے ہماری دینی زندگی متزلزل ہو کر رہ گئی ہے۔ شیخ الاسلام نے واضح کیا ہے کہ اسلام کے اندر باقاعدہ ایسا نظام موجود ہے جو عقائد و ایمانیات کے محسوس نتائج سامنے لاتا ہے اور یہ نظام روحانی تجربات و مشاہدات پر مبنی تصوف ہے۔ اس نظام و عمل کے تجربہ کار ماہر اور سائنس دان ’’صوفیائے عظام‘‘ کہلاتے ہیں اور صرف تصوف ہی مذہبی واردات کی وہ صورت ہے جو تعلیمات اسلامی اور کیفیات ایمان کا عملی و روحانی تجربہ ہے۔ یہی باطنی مشاہدہ کا وہ نظام ہے کہ ایمان بالغیب جب اس کے تدریجی مرحلوں سے گزرتا ہے تو ایقان میں بدل جاتا ہے۔ تصوف ایمان کے مطالب کا سلسلہ ہے جس سے عقائد کی کیفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے اور تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے۔
فہرست ابواب
🔹 باب 1: تصوف کا معنی و مفہوم
🔹 باب 2: تصوف کی اصطلاح کا پس منظر اور رواج
🔹 باب 3: مطالعہ تصوف کی علمی و دینی ضرورت
🔹 باب 4: مطالعہ تصوف کی علمی اور اخلاقی ضرورت
🔹 باب 5: مطالعہ تصوف کی اعتقادی اور سائنسی ضرورت
🔹 باب 6: تصوف بنیادی مقاصد کے آئینے میں