تاریخِ اسلام شاہد و عادل ہے کہ فرقہ واریت نے امتِ مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے لیکن علمِ تصوف فرقہ واریت کی آلائش سے پاک ہے اس لیے علمِ تصوف سے ہی عظمتِ رفتہ کی باریابی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو اخلاقِ رذیلہ سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں تو تصوف کو اپنی سوچ کا مرکز و محور بنانا ہوگا کیونکہ تصوف قرآن و سنت کی حقیقی تفسیر ہے۔
تصوف کا مطلب حسنِ اخلاق ہے ایسا اخلاق جو سالک کی جملہ خصلتوں کو بدل ڈالے اور انسان روحانی اقدار کا پیکر بن جائے دراصل اخلاق کی روشنی انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے اور ظاہر کو منور کردیتی ہے جس کے باعث انسان نفس کے تھپیڑوں سے نہیں ڈرتا۔ اسی عمل سے اللہ اور بندے کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں اس پرفتن دور میں جہاں حرص، ہوس، لالچ اور طمع کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ انسان پر نفس، شیطان اور دنیا کا حملہ ہے۔ ان حالات میں زیرِ مطالعہ کتاب تاریک دلوں کے لیے روشنی کی ایک ایسی کرن ہے جو نہ صرف دل کو نفس کی آلائشوں سے پاک کرتی ہے بلکہ عملی طور پر اس کا علاج بھی تجویز کرتی ہے۔ جس سے انسان کی روح خوش و خرم ہوجاتی ہے۔ اگر پریشانی آبھی جائے تو صبر کرتی ہے، تنگی کی صورت میں قناعت کرتی ہے۔ راہِ حق کے مسافر کو کامل یقین ہوتا ہے کہ یہ سب عارضی و وقتی آزمائش ہے اس کی نظر منزل پر ہوتی ہے اور وہ گردو پیش کے حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ ایسے ہی پرعزم مسافر کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے:
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
زیر مطالعہ کتاب اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ راہِ حق کا مسافر مشکلات سے گھبرائے بغیر ذکر الہٰی کو اپنے اندر سمونے میں کلیتاً مصروف رہتا ہے پھر اس کے باطن پر اسمائے الہٰی کی مثالی صورتوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس کے دل پر نور اور ٹھنڈک کا نزول ہوتا ہے وہ اس کیفیت میں بڑی لذت محسوس کرتا ہے جب ان اسماء کے ذکر میں لذت پاتا ہے تو اور بھی زیادہ تن دہی اور ہمت سے اس ذکر میں لگ جاتا ہے چنانچہ جتنی تن دہی سے وہ ان اسماء کا ذکر کرتا ہے اسی حساب سے اس پر انوار کی بارش ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ ڈاکٹر صاحب ایک صوفی منش انسان ہیں اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے تصوف کی دنیا میں ڈوب کر لکھی ہے جیسا کہ اس کتاب کے نام ’’سلوک و تصوف کا عملی دستور‘‘ سے یہ بات عیاں ہے کہ اس میں خدا کو پانے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کون سے اورادو وظائف ہیں جو انسان کا تعلق مالائے اعلیٰ سے جوڑتے ہیں اس بات کا اندازہ زیرِ مطالعہ کتاب کے ابواب سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
پہلے باب میں دین اسلام کی دو حیثیتیں اور اس کی حفاظت کے وعدے کو بیان کیا گیا ہے کہ ایک دین کا ظاہر ہے جس میں قیام، رکوع، سجود، تلاوت و تسبیح و اذکار احکام و مناسک آتے ہیں جبکہ دوسری قسم کا تعلق باطن سے ہے ان کیفیات کی تعبیر اخلاص و احتساب، صبرو توکل، زہد و استغنائ، ایثار و سخاوت، ادب و حیائ، خشوع و خضوع، دعا کے وقت شکستگی دنیا پر آخرت کو ترجیح، رضائے الہٰی، دیدار کا شوق اور اس طرح کی دوسری باطنی کیفیات سے کی گئی۔ اسی کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو وعدے بھی فرمائے ایک اس دین کو ادیان عالم پر غالب کیا جائے گا دوسرا یہ کہ اس دین کی حفاظت کی جائے گی۔
پہلے وعدہ کی تکمیل سے ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو اس وعدہ کی دو شکلیں پیدا ہوئیں۔ وہ بزرگان جن کو اللہ رب العزت کی طرف سے شریعت کی حفاظت کی استعداد ملی تھی وہ تو دین کی ظاہری حیثیت کے محافظ بنے۔ یہ بزرگ دین مسلمانوں کو علوم دین کی تحصیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں ان میں ہر سو سال کے بعد ایک مجدد پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے دین کی تجدید ہوتی ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہے جسے دین کی باطنی حفاظت پر مامور کیا گیا۔ یہ لوگوں کو خیر کی دعوت دیتے اور انہیں نیک اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے کیونکہ علم باطن دین کی روح ہے۔ اس کو احسان و تصوف سے تعبیر کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں من کی دنیا کو اجلا کرنے کے وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں رائج تھے عہد نبوی میں پہلا اصول اونی لباس پہنا، جس کی وجہ سے ان بزرگوں کو صوفی کہا جاتا ہے یہ لوگ خلوت نشینی اختیار کرتے اور ذکر الہٰی میں مصروف رہتے اور کم کھانا و کم سونا اور کم بولنا، قرآن و نعت سننا ان کا معمول تھا۔
تیسرے باب میں تصوف کے پانچ ابتدائی تقاضے بیان کئے ہیں جن کے بغیر سالک اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ درجہ ذیل ہیں۔
پہلا تقاضا حصول علم: جس سے مراد شریعت کا علم ہے کیونکہ ایک جاہل عابد تمام عمر ریاضت کے باوجود طریقت کی پہلی منزل بھی طے نہیں کرسکتا۔
دوسرا تقاضاپیرو مرشد: قرآن و سنت کا صحیح علم کسی زندہ شخصیت کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی زندہ شخصیت کا اصطلاحی نام پیرومرشد ہے۔
تیسرا تقاضا مجاہدہ نفس: جس کے لئے کم کھانا، سونا اور کم گفتگو کرنا ضروری ہے۔ ان تین کو قابو میں رکھنے سے انسان کا من اجلا ہوتا ہے۔
چوتھا تقاضا کثرت ذکر و عبادت: تخفیف طعام، قیام، کلام کے بعد تواتر سے عبادات میں مشغول رہے۔
پانچواں تقاضا مراقبہ: مراقبہ سے مراد یہ ہے کہ اپنی تمام قوت، شعور اور ادراک صفات باری تعالیٰ کے تصور میں لگادے اس طرح سالک کو غیر مرئی اشیاء نظر آنے لگیں گی۔
باب نمبر چار میں انسانیت کی چار بنیادی خصلتیں بیان کی ہیں۔ پہلی خصلت میں طہارت ہے، طہارت سے یہاں مراد وضو اور غسل کی روح ہے۔ یہ کیفیت انسان کی جملہ کیفیات میں سب سے زیادہ مالاء اعلیٰ سے مشابہ ہوتی ہے۔ دوسری خصلت خشوع و خضوع ہے اس حالت میں اس شخص کے نفس اور ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے جس کے راستے سے اس شخص پر مالاء اعلیٰ کی طرف سے جلیل القدر علوم و معارف نازل ہوتے ہیں۔ تیسری خصلت سماحت ہے جس کے معنی کہ انسان لذتوں، انتقام، بخل حرص کا غلام نہ ہو۔ اور چوتھی خصلت عدالت ہے عدالت سے مراد ساتھیوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسر کرنا ہر شخص کا حق ادا کرنا، حالات کے مطابق الفت برتنا اور خندہ پیشانی سے ملنا۔
پانچویں باب میں سات نسبتوں کا بیان ہے۔ اس باب میں پہلے نسبت کی وضاحت کی گئی ہے کہ پختہ طریقہ، عادت ثانیہ یا ایسا کمال جو کسی وقت بھی انسان سے جدا نہ ہوں وہ نسبت کہلاتا ہے۔ راہ حق کی تلاش میں پہلی نسبت طہارت ہے۔ وضو کرکے صاف کپڑے پہننا اور خوشبو لگانے سے عارف کو نفاست و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری نسبت کو سکینہ کہتے ہیں۔ اس نسبت کے آگے تین شعبے بتائے ہیں حلاوتِ مناجات، شمولِ رحمت اور انوار اسمائے الہٰیہ ہیں۔ اس کے بعد عالم ارواح کے طبقے بیان کئے ہیں۔ مالاء اعلیٰ کا طبقہ، ملاء سافل کا طبقہ اور ارواح مشائخ کا طبقہ، چوتھی نسبت، نسبت یاداشت ہے پانچویں نسبت عشق ہے اور چھٹی نسبت وجد ہے۔ ساتویں نسبت توحید ہے۔
فہرست
🔹 باب 1 : تصوف و احسان اسلامی تاریخ کے آئینہ میں
🔹 باب 2 : اصولہائے تصوف عہد رسالت اور عہد صحابہ میں
🔹 باب 3 : تصوف و سلوک کے پانچ ابتدائی تقاضے
🔹 باب 4 : تصوف و احسان اور انسانیت کی چار بنیادی خصلتیں
🔹 باب 5 : سات نسبتوں کا بیان
🔹 باب 6 : سات نفوس کا بیان