حدیثِ ضعیف پر اٹھنے والے تمام تر اعتراضات اور اِشکالات کو ائمہ حدیث وفقہائے اسلام کے اقوال اور ان کے اپنے طرزِ عمل سے رد کرنے والی یہ کتاب اپنے قاری کو یہ بتاتی ہے کہ محض کسی حدیث کے بارے میں لفظ ضعیف وارد ہو جانا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اب یہ حدیث قابلِ اِستفادہ و احتجاج ہی نہیں رہی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی اس تصنیف میں علمی تاریخ کے ہر دور سے شواہد جمع کرتے ہوئے یہ بات establish فرما دی ہے کہ حدیثِ ضعیف ائمہ حدیث و فقہاء کے ہاں فضا ئلِ اَعمال، ترغیب و ترہیب، قصص اور مغازی وغیرہ میں تو مقبول ہے ہی؛ مگر اس سے بڑھ کر وہ محض قیاس پر ہمیشہ حدیثِ ضعیف کو ہی ترجیح دیتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام محدثین، بشمول امام بخاری کے، کسی باب میں حدیثِ صحیح کی عدم موجودگی میں حدیثِ ضعیف کو بطور استشہاد ذکر کرتے رہے ہیں۔
اس کتاب میں حدیثِ ضعیف اور مُضعَّف میں فرق، نیز حدیثِ ضعیف اور موضوع میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ اور أئمہ محدثین کے اقوال اور ان کے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ حدیثِ ضعیف کو روایت کرنا، نیز اس پر عمل کرنا ہر زمانے میں نہ صرف جائز بلکہ غالب مذہب رہا ہے۔
اس کتاب کو منفرد و ممیز بنانے والی بے شمار باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جن ائمہ کی طرف حدیثِ ضعیف پر عمل کے متروک ہونے کا قول منسوب ہوتا رہا ہے، حضور شیخ الاسلام نے ان ائمہ کی اپنی تحریروں سے اس نسبت کے درست نہ ہونے کو ثابت کر دیا ہے۔
اس کتاب میں دو درجن سے زائد ائمہ حدیث، أئمہِ صحاحِ ستہ اور فقہاے مذاہب اربعہ کے اقوال سے حدیث ضعیف کی روایت اور اس پر عمل کے جواز کو اتنی واضحیت سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا نفسِ مسئلہ کو نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔