پیغمبر اسلام علیہ التحیۃ والسلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی ایسے افراد کی ایک وقیع اور قابلِ ذکر جماعت تیار کر لی تھی جس نے آگے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی اور ابدی تعلیمات کے فروغ کے لیے خدمات سر انجام دینا تھیں۔ اس خوش بخت طبقے کو چونکہ حالتِ ایمان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت و معیت میسر آئی تھی اس لیے انہیں صحابہ (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطفِ صحبت سے مستفید ہونے والے) کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ فرما کر انہیں مجالست و مصاحبت اور رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ فرما کر مقامِ رضا کا شرف بخشا ہے۔ یہ نفوسِ قدسیہ علمِ نبوی کے وارث ہونے کی وجہ سے اُمت کے لیے حجت اور منبع و مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب کوئی شخص ان سے بے نیاز ہو کر دین کے چشمۂ صافی سے سیراب نہیں ہو سکتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مَکَانَةُ الصُّحْبَة وَحَقِیْقَةُ الْخِلَافَة کے عنوان سے کتاب میں انہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی عظیم المرتبت شخصیات کے تذکار، اَفکار اور اَنوار کی تجلیات کو علمی و تحقیقی انداز سے قلم بند کیا ہے۔ اس تصنیفِ لطیف میں آپ نے واضح فرما دیا ہے کہ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوۃ قائم رہی۔ آپ نے مشاجراتِ صحابہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اِختلافات) کو ایسے حکیمانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ نفسِ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے اور عصمتِ صحابہ پر بھی کوئی تعریض واقع نہیں ہوتی۔
یہ تحقیقی کام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عظیم تاریخی کاوش ہے۔ اس اعتبار سے انہوں نے اِفراط و تفریط سے بالاتر اور وابستگی و تعصب کو پسِ پشت ڈال کر حقائق کو روایت و درایت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اسلام کے حقیقی نظریے کو واضح کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ تاریخی کاوش بالخصوص نسلِ نو کی نظریاتی آب یاری کرے گی۔