اسلام اپنے مزاج میں اجتماعیت کا دین ہے یعنی اگر ہم اسلام کے نظامِ عبادات، احکام یا معاملات کو دیکھیں تو ہر جگہ ہمیں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی روح کار فرما نظر آئے گی۔ یہی سبب ہے کہ اسلام نے جہاں بھی احکام یا ہدایات عطا کی ہیں وہاں انفرادی کی بجائے اجتماعی انداز سے مخاطب کیا گیا ہے اور انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے۔ کسی بھی نظام فکر و عمل میں اجتماعیت کی روح اسی وقت محفوظ و مامون رہ سکتی ہے جب اس میں امدادِ باہمی، تعاون اور ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کی واضح تعلیمات موجود ہوں۔ اسلام کی عطا کردہ تعلیمات اور ہدایات میں یہ روح ہمیں واضح طور پر رُو بہ عمل نظر آتی ہے۔ اسلام نے معاشرہ میں امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کا اُصول بھی عطا کیا ہے، جہاں معاشی طور پر مضبوط افرادِ معاشرہ کمزور اور محروم المعیشت افراد کی کفالت کے ذمہ دار ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ تصنیف اسلام کے عطا کردہ معاشی نظام کی نہ صرف چند اہم اور امتیازی جہات کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اسلام کے اجتماعی نظام میں امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کی انہی تفصیلات کا احاطہ کر رہی ہے۔ اَفرادِ معاشرہ کے مابین معاشرتی، سیاسی، دفاعی، قانونی، اخلاقی اور علمی میادین میں کہاں کہاں تعاون کے امکانات موجود ہیں اور کہاں کہاں افرادِ معاشرہ کو ایک دوسرے کا دست و بازو بنتے ہوئے اپنے وسائل اور ذرائع کی نفع بخشی کے دائرے کو دوسرے افرادِ معاشرہ تک پہنچانا چاہیے۔ نیز ایک اسلامی ریاست کفالتِ عامہ کو بطور ایک نظام کس طرح وضع کر سکتی ہے، ان سب جہات کا تفصیلی بیان اس کتاب میں موجود ہے۔