آج 18 ذی الحج ہے، جس دن حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
یہ اعلانِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ تھا، جس کا اطلاق قیامت تک جملہ اہلِ ایمان پر ہوتا ہے اور جس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جو ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کا منکر ہے وہ ولایتِ محمدی ﷺ کا منکر ہے۔ اِس عاجز نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ پر بعض لوگ بوجہِ جہالت متردّد رہتے ہیں اور بعض لوگ بوجہِ عناد و تعصّب۔ سو یہ تردّد اور انکار اُمّت میں تفرقہ و انتشار میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اندریں حالات میں نے ضروری سمجھا کہ مسئلۂ وِلایت و اِمامت پر دو رِسالے تالیف کروں : ایک بعنوان ’السَّیفُ الجَلِی عَلٰی مُنکِرِ وِلایۃِ عَلیّ رضی اللہ عنہ‘ اور دوسرا بعنوان ’القولُ المُعتَبَر فِی الامام المُنتَظَر‘۔ پہلے رسالہ کے ذریعے فاتحِ ولایت حضرت امام علی علیہ السلام کے مقام کو واضح کروں اور دوسرے کے ذریعے خاتمِ ولایت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا بیان کروں تاکہ جملہ شبہات کا اِزالہ ہو اور یہ حقیقت خواص و عوام سب تک پہنچ سکے کہ ولایتِ علی علیہ السلام اور ولایتِ مہدی علیہ السلام اہلِ سنت و جماعت کی معتبر کتبِ حدیث میں روایاتِ متواترہ سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے رسالہ میں حدیثِ نبوی ﷺ کی اکیاون (51) روایات پوری تحقیق و تخریج کے ساتھ درج کی ہیں۔ اِس عدد کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اِمسال اپنی عمر کے 51 برس مکمل کئے ہیں، اس لئے حصولِ برکت اور اِکتساب خیر کے لئے عاجزانہ طور پر عددی نسبت کا وسیلہ اختیار کیا ہے تاکہ بارگاہِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں اِس حقیر کا نذرانہ شرفِ قبولیت پاسکے۔