🔰 التوسل عند الائمۃ و المحدثین
(عقیدۂ توسل ائمہ و محدثین کی نظر میں)
بندۂ مؤمن کی زندگی کا مقصدِ حقیقی … اپنے خالق و مالک اللہ جل جلالہ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ وہ اپنی حیات مستعار میں ایسے اعمال بجا لانے کا پابند ہے جن سے اس کا رب اور اس کا محبوبﷺخوش ہوجائیں۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جس نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات اپنے رب کے پسندیدہ امور بجالانے میں صرف کئے۔
اسلام میں ایک مسلمان کو فرائض کی بجا آوری کے لئے اللہ رب العزت کی توفیق کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ایسے مستحسن طریقے اور ذرائع بھی میسر ہیں جن سے بلندی درجات اور خداوند کریم کا قرب نصیب ہوتا ہے، ان طریقوں میں سے ایک پسندیدہ اور آسان طریقہ توسُّل ہے۔ یہ بڑی سادہ اور بنیادی سی حقیقت ہے کہ توسُّل قربِ خداوندی کے حصول کے لئے دعا کی ایک شکل ہے اور پسندیدہ و جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جس عمل یا شخصیت کو بطور وسیلہ پیش کیا جاتا ہے، اس سے مقصود یہ امید ہوتی ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے عاجز، گنہگار اور خطاکار بندے ہیں جبکہ متوَسَّل بہِ اللہ کا محبوب و مقرب ہے، اس کے وسیلہ جلیلہ سے اللہ رب العزت ہمیں ہماری پریشانیوں اور آفات و بلیات سے نجات عطا فرمائے گا۔ اس عمل کے دوران متوَسَّل بہِ کو اللہ جل جلالہ کا شریک سمجھا جاتا ہے، نہ اللہ کا ہمسر، اس لئے کہ حقیقی کار ساز اور مشکل کشا تو اللہ رب العزت ہی ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فکری انتشار کے باعث ایسے غیر متنازع اور خیر خواہی پر مبنی اعمال کی بجا آوری کو بھی مسلکی تعصب اور عناد کی بھینٹ چڑھا کر متنازعہ مسئلہ بنا دیا گیا حتی کہ بعض افراط و تفریط کا شکار لوگ آج اسے شرک و بدعت سمجھنے لگے ہیں۔ درحقیقت یہ معاملہ بھی ان دیگر معاملات کی طرح ہے جن میں محض جذبات یا تنگ نظری کی بنا پر غلط فہمی اور کج فکری پیدا ہوجاتی ہے اور پھر وہ کسی گروہ کی مجموعی علامت قرار دیکر من حیث الکل مبغوض ہوجاتا ہے۔
مفکرِ اسلام داعیِ اتحادِ امت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عقائد کے حوالے سے ایک عظیم اور قابلِ تحسین علمی و اجتہادی کاوش یہ ہےکہ آپ نے عقائدِ اسلامیہ پر درجنوں ضخیم کتب تالیف کی ہیں۔ ان کتب کے مطالعہ سے نہ صرف شکوک و شبہات کا ازالہ ہوتا ہے بلکہ آپ کی اجتہادی بصیرت، علمی تبحر، بلند فکری اور فی و تکنیکی مہارت کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
زیر نطر تالیف ’التوسل عند الائمۃ و المحدثین‘ بھی اسی سلسلہ تحقیق کی ایک کڑی ہے جس میں حضرت شیخ الاسلام نے منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے علامہ ابنِ تیمیہ، حافظ ابنِ کثیر، علامہ ابن رجب حنبلی، علامہ شوکانی اور علامہ بھوپالی سے لیکر علامہ تھانوی تک ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے والے علماء کی تصریحات سے یہ ثابت کیا ہے کہ توسل نہ صرف مباح اور جائز ہے بلکہ یہ ایک ایسا عملِ خیر اور عملِ صالح ہے کہ اس کی برکت سے بارگاہِ خداوندی میں دعاؤں اور التجاؤں کے مقبول و مستجاب ہونی کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔