اِس کتاب میں حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے تصورِ بدعت کے حوالے سے اِس اَمر کو واضح کیا ہے کہ بدعت کی درست تفہیم کے لیے اِس کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر - ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد اِیجاد ہوا - حرام یا مردود قرار دے دیا جائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اِسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آجائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور اِستنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِ دین کے لئے ضروری ہیں، اگر بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ کی جائے تو یہ سب اُمور حرام قرار پائیں گے۔
حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے تقسیمِ بدعت کی ناگزیریت پر بحث کرتے ہوئے اِس بات کو اَلم نشرح کیا ہے کہ لُغوی اِعتبار سے ہر نئے کام کو - خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نامقبول - بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اِس اِبہام سے بچنے کے لیے بدعت کی ایک اُصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے اور بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد ایجاد ہوا مذموم، حرام اور باعثِ ضلالت قرار نہیں دیا، بلکہ کسی نئے کام کو ‘‘بدعۃِ لغویۃ’’ کے زمرے میں رکھا ہے اور کسی کو ‘‘بدعۃِ شرعیۃ’’ کے زمرے میں۔ اس طرح صرف بدعتِ شرعیہ کو ہی بدعتِ ضلالہ قرار دیا ہے جب کہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔
بدعت کی یہ تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کو صراحتاً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اَعلام کے ابنِ تیمیہ (728ھ)، ابنِ کثیر (774ھ)، ابنِ رجب حنبلی (795ھ)، علامہ شوکانی (1255ھ) اور علامہ بھوپالی (1307ھ) سے لے کر شیخ عبد العزیز بن باز (1421ھ) تک، ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض علماء اور محدّثین جو اپنے آپ کو ‘‘سلفی’’ کہتے ہیں، سوادِ اَعظم سے اپنے آپ کو جدا قرار دیتے ہیں اور کسی لحاظ سے بھی بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم جائز نہیں سمجھتے وہ بھی بدعت کو بدعتِ لُغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں، جب کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ بھی کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لُغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر سے بھی موسوم کرتے ہیں۔
اِس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تمام تر لفظی اور اِصطلاحی اِختلافات کے باوجود تمام مکاتبِ فکر اِس اَمر پر متفق ہیں کہ کسی بھی نئے عمل کی حلت وحرمت یا جواز و عدمِ جواز کے تعیّن کے لیے بدعت کی تقسیم ناگزیر ہے۔ الغرض اِلتباس و اِبہام اور خلطِ مبحث سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث کی حقیقی تفہیم اور علومِ شریعہ کی درست تعبیر کے لیے لفظِ بدعت کی لغوی و شرعی یا حسنہ اور سیئہ میں تقسیم لازم ہے۔