اُمتِ مسلمہ میں باہمی مذہبی اور اعتقادی اختلاف، بے اعتدالی کے باعث پیدا ہوا۔ ایک طرف بندگانِ خدا اور مقبولانِ بارگاہ کی محبت و عقیدت میں بربنائے جہالت غلو اس حد تک بڑھا کہ بات افراط تک جا پہنچی اور دوسری طرف ردِ عمل میں تخفیف و تنقیص کے باعث معاملہ تفریط تک پہنچ گیا۔ افراط نے جہاں خرافات و بدعات کا دروازہ کھولا وہاں تفریط گستاخی و اہانت کا رنگ اختیار کر گئی۔ پس محبتوں اور عقیدتوں کی حدود اور ان کے مراتب و مدارج کا تعین کرنا لازمی و لابدی امر ہے۔ اہلِ حق ہمیشہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے لے کر اولیائے عظام تک فرقِ مراتب کو ملحوظ رکھتے چلے آئے ہیں، لہٰذا افرادِ ملت کے درمیان توازن و اعتدال قائم رکھنا ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اسی اعتدال و توازن کی بناء پر امتِ مسلمہ کو ’’امتِ وسط‘‘ کہا گیا ہے۔امتِ مسلمہ کو امتِ وسط کے خطاب سے اس لئے نوازا گیا کہ وہ حدِ افراط کو نہیں پھلانگتی اور یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین کی طرح ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کو نہیں پوجتی، انبیاء کو خدا نہیں مانتی اور نہ ہی ان کی طرح انتہائی تفریط کا شکار ہوتے ہوئے انبیاء اور اولیاء کو قتل کرتی اور ہتک آمیز سلوک کرتی ہے۔ یہی بنیادی فلسفہ ’’امتِ وسط‘‘ کے عنوان میں کارفرما ہے۔ لہذا عقائد میں حزم و احتیاط کا پہلا تقاضا اعتدال و توازن، رواداری اور تحمل و بردباری ہے ورنہ افتراق و انتشار کسی مسئلے کا حل نہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیرِنظر کتاب میں عقائد میں احتیاط کے تقاضے واضح کیے گئے ہیں، سادہ لوح لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کی گئی ہے، جائز اور ناجائز میں، حلال و حرام میں، توحید اور شرک میں فرق سمجھایا گیا۔
فہرست
🔹 اعتدال و توازن: اہلِ حق کا امتیاز ہے
🔹 صیغۂ خطاب کے ساتھ صلاۃ و سلام شرک نہیں
🔹 تصوف اور اسلام
🔹 مزاراتِ اولیاء کی زیارت اور حاضری کے آداب
🔹 ضعفِ اعتقاد پر مبنی رسوم سے اجتناب کی ضرورت