گزشتہ چند دہائیوں سے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے درمیان جن اختلافی مسائل نے افتراق و انتشار کا بازار گرم کر رکھا ہے ان میں فتنۂ تنقیصِ رسالت ﷺ کے ساتھ ساتھ فتنہ تکفیر مسلمین بھی سرِ فہرست ہے۔ عقیدۂ توحید بلاشبہ اسلامی عقائد کی جان اور اصل روح ہے اور اسے پوری خالصیت و قوت کے ساتھ اسلامی معاشرے میں رواج دینا ضروری ہے لیکن خالص توحید کی تبلیغ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صدیوں سے جاری جائز اعمال و افعال کو بیک جنبشِ لب شرک قرار دے دیا جائے۔ مثلا ایصالِ ثواب ایک جائز شرعی عمل ہے اور اس کی بے شمار شکلیں ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق صدیوں سے جاری ہیں۔ ان میں ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کرکے ان کا گوشت تقسیم کر دیا جائے یا اس کا کھانا پکا کر لوگوں کو کھلایا جائے۔ اسی طرح انبیاء و اولیاء کے مزارات پر حاضری دینا اور وہاں جاکر قرآن خوانی، درود و سلام کا ورد یا فاتحہ خوانی اور دعا کا عمل بہر طور مستحب اور جائز عمل ہے جس سے دل میں نرمی، نیکی کی ترغیب اور اللہ تعاليٰ کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا ہے جو بذاتِ خود مشروع اور مقصود شریعت خصوصیات ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان اعمالِ حسنہ کو بھی شرک کے زمرے میں لاکر نہ صرف متنازعہ بلکہ ممنوعہ اور حرام قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان جائز اور مشروع اعمال کو حرام قرار دینے کی انتہائی جسارت کا سبب دراصل وہ غلط فہمی ہے جو قرآنی آیات کا خود ساختہ مفہوم متعین کرنے سے پیدا ہوئی اور مسلمانوں کے دو واضح گروہوں میں افتراق کا موجب بنی۔ ان میں پہلی قسم ان آیات مبارکہ کی ہے جن میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کو حرام قرار دیا گیا۔ دوسری نوعیت ان آیات کی ہے جن میں ’’من دون اللہ‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے جن سے مراد وہ غیر اللہ ہیں جو لکڑی اور پتھر کے بتوں اور دیگر معبودانِ باطلہ کے مخصوص دائرے ہیں آتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اللہ تعاليٰ کے برگزیدہ بندوں اور انبیاء و رُسل علیھم السلام کو بھی اللہ کے غیر کے اسی زمرے میں داخل کر دیا ہے اور ایسی تمام آیات و احادیث جن میں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے یا بتوں کے نام پر چڑھاوے چڑھانے اور وہاں جاکر نذر و نیاز کی ممانعت ہے ان کا انطباق بغیر سوچے سمجھے انبیاء و اولیاء پر بھی کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ کے دوست اور زمین پر اس کی خلافت کے امین ہیں۔ صاف ظاہر ہے ان کی حیثیت اور جھوٹے خداؤں کی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کا احساس کئے بغیر محض توحید کی تبلیغ کے نشے میں اللہ کے محبوب بندوں اور اللہ تعاليٰ کے دشمنوں کو یکجا کرکے ان پر ایک ہی حکم جاری کر دینا نہ دین کی کوئی خدمت ہے اور نہ توحید کی اشاعت۔
ان مفاہیم پر بے شمار لٹریچر موجود ہے مگر جس واضحیت اور حکمت کے ساتھ حضرت شیح الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مسئلہ کی نوعیت آشکار کی ہے وہ ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ ’’کتاب التوحید (جلد اَوّل)‘‘ میں بھی یہ ابحاث شامل ہیں۔ یہ موضوع چونکہ بہت زیادہ زیر بحث رہتا ہے اور سب سے زیادہ غلط فہمیاں بھی اسی تصور کی غلط تطبیق سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ ان ابحاث کو آسان و سہل بنا کر الگ کتابی صورت میں شائع کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ قارئین کے حلقے میں پہنچایا جائے۔
فہرست کتاب
🔹 پہلا رکنِ توحید : واسطۂ رسالت
🔹 دوسرا رکنِ توحید : ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا
🔹 تیسرا رکنِ توحید : اَحَدیّت (اللہ کا ایک ہونا)
🔹 چوتھا رکنِ توحید : صمدیّت (اللہ کا بے نیاز اور سب پر فائق ہونا)
🔹 پانچواں رکنِ توحید : لا والدیت (کسی کا والد نہ ہونا)
🔹 چھٹا رکنِ توحید : لاولدیت (کسی کی اولاد نہ ہونا)
🔹 ساتواں رکنِ توحید : لا کفویت