قرآن و حدیث کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اصل کامیابی اُخروی ہے۔ انسان مکمل شعور اور احساس کے ساتھ ایسے اَعمالِ صالحہ انجام دے جس سے رضائے الٰہی نصیب ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا کامل مطیع و متبع ہو اور آپ ﷺ کے عطا کردہ نمونۂ اخلاق کی جھلک اپنے اندر پیدا کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے کئی ذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ خود احتسابی، حسنِ عمل اور تذکیرِ آخرت جیسے اوصاف پیدا کرنے کا ایک آزمودہ اور مؤثر ذریعہ موت اور آخرت کے احوال و آثار کا مشاہدہ اور ذہنی استحضار ہے۔
آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یادِ آخرت کا ایک اہم ذریعہ زیارتِ قبور ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ موت کتنی بڑی حقیقت ہے جس کا مزہ ہر شخص چکھے گا۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ جلیل القدر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے اور باری باری موت کا مزہ چکھتے رہے۔ اسی طرح بزعمِ خویش خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی آئے، دارا و سکندر جیسے بادشاہ بھی گزرے لیکن موت کی آہنی گرفت سے کوئی نہ بچ سکا۔ اگر اتنے نامور لوگوں کو بھی موت نے نہ چھوڑا تو عامۃ الناس اس کے تصرف سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
زہد و ورع اور تذکیرِ آخرت کے لیے زیارتِ قبور ایک بہترین عمل ہے۔ بعض لوگ عام مسلمانوں کو زیارتِ قبور سے منع کرتے ہیں اور وہاں فاتحہ کے لیے جانے والوں پر شرک اور قبر پرستی کا الزام لگا کر انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، لیکن یہ ایک انتہائی مؤقف ہے۔ قرآن و حدیث میں اس شدت پسندی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ خود قبورِ شہداء پر تشریف لے جاتے تھے، آپ ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا۔ لہٰذا یہ عمل شرک ہے نہ منافیِ توحید۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدّ ظلّہ العالی کی زیرِ نظر ’اَربعین‘ میں زیارتِ قبور پر مستند ذخیرۂ حدیث سے اَحادیث مبارکہ اور اَقوالِ اَئمہ مع اُردو ترجمہ و کامل تحقیق و تخریج جمع کیے گئے ہیں تاکہ یہ مسئلہ مکمل طور پر واضح ہو جائے اور اِس کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کا اِزالہ ہوجائے۔