حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس اُمتِ مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور اور اَساسِ حقیقی ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی بقا، سلامتی اور ترقی کا راز ہی اِس اَمر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جملہ عقیدتوں، محبتوں اور تمناؤں کا مرکز و محور گردانے اور یہ بات قطعی طور پر جان لے کہ اِیمان اور اِسلام کا سارا سفر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ پا کی غیر مشروط اِطاعت و اِتباع سے عبارت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے اِستحکام اور غلامی کے بغیر اسے دنیا میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب ہو سکتی ہے نہ آخرت میں سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم ہمیں بار بار اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اِطاعتِ مصطفی ہی اِطاعتِ خدا ہے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اس تعلق و ربط کی اَہمیت سمجھنے کے لیے حکیم الامت کا یہ شعر اِسلامی عقائد و تعلیمات کی مکمل عکاسی کرتا ہے :
بمصطفٰی بَرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باُو نرسیدی تمام بو لہبی ست
اِس وقت اُمتِ مسلمہ اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ اُمتِ مسلمہ ایک شدید روحانی کرب اور فکری و ذہنی، سیاسی و معاشی اور مذہبی خلفشار و اِنتشار کا شکار ہے اور باطل قوتوں کے سازشی ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہوکر کسی مثبت ردِّ عمل سے محروم نظر آتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدّ ظلّہ العالی نے ایک ماہر نبّاضِ ملت ہونے کے ناطے اُمت کے اس مرض کی بھی تشخیص کی اور اپنی عالمگیر تحریک منہاج القرآن کے ذریعے اس ہمہ گیر زوال و انتشار کو عروج اور بلندی میں بدلنے کے لیے ٹھوس، قابل عمل اور نتیجہ خیز لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ زیرِ نظر ’اَربعین‘ بھی اُمت کے اپنے ہادی و مرشد آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس ٹوٹے ہوئے تعلق کی بحالی کے سلسلہ کی ایک حسیں کڑی ہے۔ اِس مختصر مجموعہ حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کے وجوب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غیر مشروط اطاعت و اتباع کی کیفیات پر مشتمل ایمان اَفروز اور مستند واقعات بیان کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر بندۂ مومن کا دل جذبۂ اِطاعت و اِتباعِ رسول سے سرشار ہوجاتا ہے۔ دعا ہے کہ یہ مجموعۂ اَحادیث اَہلِ اِیماں کے دلوں میں اِطاعت و غلامیِ رسول کی مزید پختگی کا سبب بنے۔