قرآنِ حکیم کے بعد ہمارے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ سرورِ کائنات ﷺ کی ذاتِ اَقدس اور آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہے۔ جسے خود اللہ تعالیٰ نے ’’اُسوہِ حسنہ‘‘ قرار دیا۔ اس اُسوہِ حسنہ کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نفوسِ قدسیہ ہیں، جنہیں جمالِ حبیبِ خدا کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی اور جنہیں قرآن کے اوّلیں مخاطَب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
رسول اللہ ﷺ کے فیضانِ صحبت اور تعلیم و تربیت کی بدولت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اِشاعتِ اِسلام کے اَوّلین داعی اور راہِ حق میں استقامت و ثابت قدمی کے پہاڑ بن گئے۔ انہوں نے غلبہِ دین حق اور اِعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ایسی فقید المثال قربانیاں دیں کہ ان کا اِنفرادی و اِجتماعی کردار تا قیامت اُمتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و کردار اور اَخلاق و اَعمال رسولِ برحق ﷺ کی متابعت اور اُسوہِ حسنہ کے عکاس ہیں۔ اِسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن تھامو گے ہدایت پاجاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے۔‘ ایک اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت عین محبتِ رسول اور ان کی مخالفت عین مخالفتِ رسول ہے۔
الغرض نگاہِ نبوت اور فیضانِ صحبت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ صرف شرفِ اِنسانی کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے بلکہ وہ اَرفع و اَعلیٰ اَخلاق، حسنِ معاملات، حسنِ معاشرت، زُہد و وَرع، مجسمِ وفا و رضا اور باہمی محبت و مودت کے پیکر اَتم بھی قرار پائے۔ تاریخِ اِنسانی پر ان کی عظمت و کردار کے مرتسم نقوش کو ملّتِ اِسلامیہ دینی، علمی، اَخلاقی، سیاسی، عسکری اور معاشی ہر شعبہِ حیات میں نہایت فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدّ ظلّہ العالی نے قرآن و حدیث کی اصل تعلیمات کے مطابق جہاں محبتِ اَہل بیتِ اَطہار علیہم السلام کو حرزِ جاں اور مرکزِ اِیماں قرار دیا، وہیں آپ نے محبتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اسی ایمان کا جزو قرار دیا۔ زیرِ نظر ’اَربعین‘ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب اور ذِکرِ جمیل پر مشتمل مستند ذخیرہِ اَحادیث سے مرتب کی گئی ہے۔