حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس اُمتِ مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور اور حقیقی اَساس ہے۔ لہٰذا اہلِ اسلام محافلِ نعت منعقد کرکے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ نعتِ مصطفی ﷺ کوئی نیا عمل نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔
اللہ ربّ العزت نے خود قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے۔ خالقِ کائنات اپنے حبیب ﷺ سے جب بھی مخاطب ہوا تو نام لینے کی بجائے کبھی یٰاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ کہا اور کبھی یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ اور کبھی یٰسین کے لقب سے پکارا۔ اِسی طرح کلامِ مجید میں کہیں وَالضُّحٰی کہہ کر آپ ﷺ کے رُخِ اَنور کی قسم کھائی اور کہیں وَاللَّیْل کہہ کر آپ ﷺ کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم کھائی۔ ہمہ قرآن دَر شانِ محمد ﷺ کے مصداق پورا قرآن حکیم حضور ﷺ کی مدح اور نعت ہی تو ہے۔ اِس کے پیرایۂ اِظہار میں نعت ہی کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ خود محفلِ نعت منعقد فرماتے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں۔ ان کے علاوہ بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام ث کو حضور نبی اکرم ﷺ کی نعت گوئی اور نعت خوانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِمام التابعین محمد بن سیرین (م 110ھ) عہدِ نبوی کے نعت گو شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں:
’’حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد اللہ بن رواحہ ث کا شمار حضور نبی اکرم ﷺ کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے، اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ اُن کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔‘‘ (أسد الغابة لابن الأثير، 4 / 461)
علامہ ابن جوزی (510۔597ھ) نے بھی شاعر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے چند کا ذِکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’بہت سے لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو (نعتیہ) اَشعار سنائے، جن میں حضرت عباس، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت حسان، حضرت ضمار، حضرت اَسد بن زنیم، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اور بہت سے دیگر صحابہ شامل ہیں جو شاعری کے دیوان میں مذکور ہیں۔‘‘ (الوفا لابن الجوزي / 463)
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالقِ کائنات، رحمۃً للعالمین، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مدح خوانی کرنا، آپ ﷺ کی نعت پڑھنا، سننا اور محافلِ نعت منعقد کرنا قرآن و سنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی عظیم تصنیف ’میلاد النبي ﷺ‘ میں ان نعت خواں اور شعراء صحابہ کرام کی ایک مفصل اور باحوالہ فہرست بیان کی ہے۔ ان شعراء صحابہ کی کثیر تعداد اس اَمر کی غماز ہے کہ مدحتِ مصطفی ﷺ اور نعت گوئی اُن کے معمولات میں شامل تھی۔ اسی طرح ہم جب محافلِ نعت منعقد کرتے ہیں تو اِنہی جلیل القدر صحابہ و اَکابرینِ اُمت کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے۔