ابتدائے آفرینش سے ہی حق و باطل کی قوتیں باہم معرکہ آرا رہی ہیں، باطل کبھی سامنے سے اور کبھی پس پردہ حق کو مٹانے اور دبانے کے لیے حملہ آور ہوتا رہا ہے، اس نے اپنی تمام تر قوت و وسائل اور مختلف حربوں اور طریقوں اور طرح طرح کی سازشوں کے ذریعے ہر دور میں اسے نیست و نابود کرنے کی کاوش و سعی کی ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ باطل قوتیں ہمیشہ ناکام و نامراد رہی ہیں ان کی ہر مزاحمت پر حق مزید واضح اور نکھر کر سامنے آیا ہے۔ حق کا کردار تمام تر توانائیوں کے ساتھ اجاگر ہوتا رہا ہے اور اس کے ذکر کو دوام و پذیرائی ملتی رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قیامت تک جو بھی تحریک حق کا علمبردار بن کر ابھرے گی اسے ہر قسم کی مخالفت و مخاصمت، عداوت و دشمنی سے گذر کر سوئے منزل رواں دواں ہونا ہوگا اور اس وقت تک منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے گی جب تک سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی نہ کرے گی۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘ (احزاب، 33 : 21)
آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حق کی آواز بلند کی لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو اپنے پرائے سب مخالف ہوگئے، مصائب و آلام کے پہاڑ کھڑے کر دیئے، ہر مقام پر مخاصمت و مزاحمت کی، طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کیں، اور تکالیف پہنچائیں حتی کہ معاذ اللہ جان سے مار دینے کے لئے مکان کا محاصرہ کر لیا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو وہاں بھی آرام سے نہ رہنے دیا، خود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کئی غزوات میں بنفس نفیس شریک ہوئے بالآخر وہ دن بھی آیا جب اسلام غالب قوت کے طور پر سامنے آیا دشمنون کی ساری ریشہ دوانیاں ختم ہوگئیں حق اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ چھا گیا اور باطل اپنے تمام برے ارادوں میں ناکام و نامراد رہا۔
حق کی تحریک کے راستے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہر دور میں رکاوٹیں آتی رہی ہیں، حسد و بغض، عداوت و دشمنی کے بڑے بڑے طوفان اور پہاڑ کھڑے کیے جاتے رہے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں اپنی جان تک حق کی سربلندی کے لئے قربان کر دی لیکن حق کے علم کو باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اسی طرح تاریخ اسلام کے تمام ادوار میں بڑے بڑے ائمہ، اولیاء و صلحاء سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اور حسینی کردار کو زندہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن اسی پیغام حق کی صدائے بازگشت ہے یہ تحریک عالمگیر سطح پر غلبہ دین کی بحالی، احیائے اسلام اور اتحاد امت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بپا ہوئی ہے اس تحریک سے امت مسلمہ کے احوال حیات بدل رہے ہیں دین سے متنفر کی جانے والی نوجوان نسل کشاں کشاں اس تحریک سے وابستہ ہو رہی ہے اور اس کے دل اور سینے عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور ہو رہے ہیں اور اس کے دم قدم سے امت مسلمہ میں اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے شعور و بیداری اور انقلاب کی لہر اٹھ رہی ہے، اس تحریک کی مختصر عرصے میں کامیابیوں اور اس کی اٹھان کو دیکھ کر داخلی و خارجی سطح پر کچھ حاسد و دشمن بھی پیدا ہوگئے جو کہ کسی بھی سطح پر دین حق کی بحالی اور اسلامی اقدار کا احیاء نہیں چاہتے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ تحریک کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کے لئے فتنہ و شر پھیلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اندر اتنی جرات و ہمت نہیں کہ سامنے آکر علمی سطح پر کسی مسئلے پر بات کر سکیں۔
یہ کتاب جس کا عنوان ’’خوابوں اور بشارات پر اعتراضات کا علمی محاکمہ‘‘ ہے مفکر اسلام قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایک خطاب سے اسے مرتب کیا گیا ہے جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں خواب کی شرعی حیثیت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے خواب و بشارات کو بیان کرنے کے معمولات اور آئمہ و اولیاء، علماء و صلحاء کے معمولات اور خاص قائد محترم کے مبشرات و رویائے صالحہ کی کیسٹ کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات رقم کئے گئے ہیں۔
عجلت میں اس کتاب کی تریب و تدوین میں حتی المقدروریہ کوشش کی گئی اسے عام فہم اور آسان بنایا جائے تاہم مجھے اپنی علمی کم مائیگی و بے بضاعتی کا اعتراف ہے اس میں اگر کسی قسم کا کوئی سقم رہ گیا ہو تو مطلع فرما کر شکریہ کا موقع دیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دی جائے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کی حقیقی فہم و بصیرت عطا کرے اور حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق، اطاعت و اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم