وقار و تمکنت اور سطوت و شوکت کی کم و بیش بارہ صدیاں گزارنے اور زِندگی کی ہر جہت میں اَقوامِ عالم کی فکری و عملی رَہنمائی کے بعد جب اپنی رِوایتِ علمی سے اِنحراف اور جُہدِ مسلسل سے اِجتناب کے سبب اُمتِ مسلمہ زوال و اِنحطاط کے حصارِ بے اَماں کا شکار ہوئی تو گلوبل لیول پر ہر شعبۂ زندگی میں تنزّلی کی اَن گنت نارَوا صورتیں اُس کا مقدّر بن گئیں۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور تسخیرِ کائنات کی مخاطب مسلم قوم صحرائے روز و شب کی منہ زور آندھیوں کے غبارِ ریگِ رواں میں گم ہو کر رہ گئی اور زِندہ قوموں کی طرح دِینی و دُنیوی ترقی اور خوشحالی و فلاح کی منزل کی طرف مسلسل حالتِ سفر میں رہنے کی خوئے دِلنواز کو یکسر بھلا بیٹھی۔ ہم نے خود کو فقہ و عقائد کے باب میں چھوٹے چھوٹے فروعی و نِزاعی اِختلافات میں اُلجھا کر اَقوامِ عالم کو اِس بات کا کھلا موقع فراہم کیا ہے کہ جہاں وہ ایک طرف ہمارے اَسلاف کی علمی و فکری کاوشوں اور بے مِثال سائنسی تحقیقات کے ثمرات سے بھرپور مستفید ہوسکیں، وہاں دینِ اِسلام اور اُس کے پیروکاروں پر دِل کھول کر طعن و تشنیع بھی کر سکیں، اور خود منظرِ ہستی سے دُور کنارے ہٹ کر زِندگی کی دوڑ میں بری حد تک پس ماندہ رہ گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی اِس شکست کا اِدراک بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ذِلت و رسوائی، زوال و مسکنت اور اِدبار و اِنحطاط کے دبیز سائے ہمارا مقدّر بن کر رہ گئے ہیں۔
اِس وقت ہم قیل و قال کے جن لا یعنی اور بے سُود جھگڑوں میں اُلجھے ہوئے ہیں، نئے آفاق کی تسخیر پر نظر رکھنے والی پُرعزم اور پُرجوش عملی زندگی سے اُن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جمیع اَقوامِ عالم کی اِمامت کی اَہل اُمتِ مسلمہ جسے قرآنِ حکیم نے ’’اُمتِ وسط‘‘ کا خطاب دیا تھا، آج اِمامتِ اَقوامِ عالم کا فریضہ سراِنجام دینے سے قاصر ہے۔ اِس لئے کہ اُس کے تمام تر ثقافتی اَثاثے جل کر راکھ ہو چکے ہیں اور اُس کے عزائم رزقِ زمیں بن کر اُسے بے عملی کے جہنّم کا اِیندھن بنا چکے ہیں۔ آج اُمتِ مسلمہ اَقوامِ عالم کی اِمامت کا فریضہ مغربی طاقتوں اور صہیونی بھیڑیوں کے سپرد کرنے کے بعد خود چھوٹے چھوٹے مسلکی معاملات میں اُلجھی ہوئی ہے۔ لاریب اِسلام غیروں کو گلے لگانے اور اپنا بنانے کا درس دیتا ہے لیکن ہم نے اپنوں کو بھی چُن چُن کر دائرۂ اِسلام سے نکال باہر کرنے کا وطیرہ شروع کر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم ذِہنی غلامی کے ایسے جال میں جکڑے جا چکے ہیں کہ حقیقی مسائلِ حیات سے اِغماض ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے۔
نیرنگیءِ دَوراں تو دیکھئے کہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا سہرا مغربی اَقوام کے سر ہے اور اِس کام کی بنیادیں مہیا کرنے والے اپنے علمی اَثاثوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اِتّحادِ اُمت کا ہر تصوّر اَنا کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مغربی اَقوام اِسلام کی فطری تعلیمات کے ساتھ جدید سائنسی تحقیقات کی بے پناہ موافقت کی بدولت لاشعوری طور پر دینِ فطرت سے کسی حد تک قریب ہوتی چلی جا رہی ہیں اور دُوسری طرف ہم اپنی خود ساختہ خدمت و تبلیغِ دین کے ذریعے پہلے سے موجود مسلمانوں کو بھی کافر و مشرک قرار دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ چند فروعی اِختلافات کو وجہِ نزاع بنا لینے کے سبب اُمت کئی مسلکی گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ قوّتِ برداشت سے محروم ہو چکا ہے۔
’’اِستغاثہ‘‘۔ ۔ ۔ یعنی کسی شخص کا دُوسرے سے مدد طلب کرنا۔ ۔ ۔ کے جواز و عدم جواز پر مبنی اِختلاف پر بے شمار مُوشگافیوں کی وجہ سے اِسلام کی فطری تعلیمات کا چہرہ بری طرح سے مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور نسلِ نو کے اَذھان اِسلامی تعلیمات کی بابت مسلسل پراگندہ ہو رہے ہیں۔ حالانکہ اِسلام ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے اور اِنسانیت تعاونِ باہمی (Mutual Cooperation) کے فطری اُصولوں ہی کی بدولت معاشروں کی صورت میں آباد ہے۔
اِنسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور معاہدۂ عمرانی کے مطابق ایک دُوسرے کی مدد کرنے اور ایک دُوسرے سے مدد طلب کرنے کے اِرادے سے بستیاں اور شہر بساتے ہوئے مل جل کر رہتا ہے۔ تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کا ایک اَدنیٰ سا طالبِعلم بھی اِس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ معاہدۂ عمرانی ’’وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى‘‘ کی عملی تفسیر ہے اور اگر اِس معاہدے کی عملی اِفادیت سے اِنکار کر دیا جائے تو نظامِ حیات دَرہم بَرہم ہو کر رہ جائے گا۔ نوزائیدہ بچہ کبھی اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اَزخود اپنی خوراک تیار کرسکے، ایک نوجوان کو بہتر تعلیم و تربیت اور اچھے بُرے کی تمیز کے لئے بڑوں کے تجربات سے اِستفادہ کرنا ہوتا ہے اور ضعیف العمری میں تو جوان اَولاد ہی سہارا ہوتی ہے۔ یوں اِنسان اپنی عمر کے تقریباً ہر مرحلے میں دُوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ بیماری، جنگ، حوادث اور دیگر قدرتی آفات سے بچنے کے لئے تمام اِنسان ایک دُوسرے کی مدد کے محتاج ہیں۔ بیمار کو ڈاکٹر سے دَوا کی طلب ہے تو طالبِ علم کو اُستاد سے تعلیم کی، مزدور کو مالک سے مزدوری کی طلب ہے تو پڑوسی کو حقِ ہمسائیگی کی، بچے کو ماں سے دُودھ کی طلب ہے تو بوڑھے کو جوان اَولاد کے سہارے کی، الغرض پوری نسلِ اِنسانی زندگی کے ہر دَور میں کسی نہ کسی سطح پر اَفرادِ معاشرہ سے مدد کی خواہاں ہے۔ باہمی مراسم کی اُستواری ہی ہماری ثقافتی زندگی کا حُسن ہے۔ بلا شک و شبہ حقیقی کارساز اور مددگار فقط اللہ ربّ العزّت ہی کی ذاتِ بیکس پناہ ہے مگر ہم روزانہ سینکڑوں معاملات میں ایک دُوسرے کی مدد کرتے اور ایک دُوسرے سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارا باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا اللہ ربّ العزّت کی توحید کا اِنکار نہیں بلکہ حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ اَنبیائے کرام، صلحائے عِظام، اہلِ علم و فضل اور اہلِ حِرفہ کو ’’مستعانِ مجازی‘‘ سمجھتے ہوئے اُن سے مدد مانگنا عین اِسلام ہے، جبکہ ’’مستعانِ حقیقی‘‘ ذاتِ باری تعالی ہے۔ حقیقت و مجاز کی اِسی تقسیم سے کچھ لوگوں کا اِغماض اِستغاثہ سمیت اِسلام کے اکثر و بیشتر عقائد میں اُلجھاؤ پیدا کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں فرقہ بندی جنم لیتی ہے۔
زیرنظر کتاب جو اِستغاثہ کی شرعی حیثیت پر مفکر اِسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے لیکچرز کا مجموعہ ہے، میں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مشتمل تصوّرِ اِستغاثہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں اِستغاثہ کی شرعی حیثیت، اِسلامی عقائد میں اِس کے مقام، جواز و عدم جواز اور اِس کے ساتھ ساتھ حُدودِ جواز کا تعین بھی پیش کیا جائے گا۔ موضوع کا اُسلوب اگرچہ علمی و تحقیقی ہے لیکن ہم اُمید کرتے ہیں کہ عام قارئین بھی اِس سے اِستفادہ کو مشکل نہیں پائیں گے۔
کتاب کی تدوین اور اِس کے فنی اُسلوب میں کسی قسم کی لغزش اور کوتاہی کی صورت میں جہاں مرتِّب کو اپنی علمی بے بضاعتی کا اِعتراف ہے وہاں اِس کی نشاندہی قارئین کا علمی و اَخلاقی فریضہ بھی ہے۔