معیشت انسانی زندگی - چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی - میں مرکز و محور کی حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی ذمہ دار تہذیب، نظریہ یا نظامِ زندگی معیشت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ اسلام آفاقی دین ہوتے ہوئے معیشت کے باب میں جامع تعلیمات کا حامل دین ہے۔ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اگر اسلام کے عطا کردہ تصوراتِ معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معیشت کی نظریاتی اور عملی و اطلاقی دونوں حوالوں سے بڑی واضح اور جامع تعلیمات موجود ہیں۔
سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیں معیشت کے تصوراتی و نظریاتی پہلو کے حوالے سے جامع معلومات اور رہنمائی ملتی ہے۔ جس کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زندگی میں معاشی سرگرمیوں سے صرف نظر کر کے نہ صرف یہ کہ اﷲ کے عطا کردہ احکامات کی پیروی اور حقوق العباد کی ادائیگی ممکن نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی بھی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ تاہم معاشی سرگرمیوں کی اہمیت پر غیر ضروری زور، جو دوسری دنیا کے نظام ہائے معیشت میں موجود ہے، کے نتیجے میں جن خرابیوں کے زندگی میں در آنے کا اندیشہ ہے اُن کا ازالہ بھی سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں سیرت کی عطا کردہ تعلیمات سے کیا جا سکتا ہے۔ تصورِ معیشت میں مطلق ملکیت کی جگہ امانت کے تصور کو انسانیت کے لیے پہلی دفعہ متعارف کروایا گیا جس کے نتیجے میں انسان کی تمام تر سرگرمیوں کی جہت ہی کلیتاً بدل جاتی ہے۔
نظری تعلیمات کے ساتھ ساتھ معیشت کے باب میں سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی اور اطلاقی تعلیمات بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ میسر آتی ہیں۔ فلاحی معیشت کا قیام، معاشرت اور معیشت و ریاست کا باہمی تعلق، وہ بنیادی میادینِ تحقیق ہیں جن میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلیمات اور نظائر کے ساتھ رہنمائی ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف فلاحی معیشت کے قیام کے لئے واضح راہنمائی اور اصول و ضوابط عطا کیے بلکہ اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ معاشرے کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار کا قیام بھی صحت مند، منصفانہ اور عادلانہ نظامِ معیشت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ جب بھی معاشرہ معاشی تعطل کا شکار ہو گا اُس کا لازمی نتیجہ اخلاقی اور معاشرتی اختلال کی صورت میں نکلے گا۔
ریاست کی سطح پر اس امر کا ذمہ دار ریاست کر ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ افرادِ معاشرہ کی معاشی ضرورتوں کی کفالت کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے، اس میں حائل موانعات میں سرفہرست سود ہے جو ایک عادلانہ نظامِ معیشت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اِن موانعات کو دور کرنے کے لئے عملی نظائر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے بعد مواخاتِ مدینہ سے لے کے خلفاء راشدین کے زمانہ مبارک تک واضح منارہ ہائے نور کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدّظلہ العالی کی زیر نظر تصنیف میں اِسلام کے معاشی نظام کے نظری اور عملی تصورات کو سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف نہ صرف اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے ممد و معاون ہو گی بلکہ دورِ جدید کے معاشی علوم کی ترقی کے تناظر میں اسلام کی معاشی تعلیمات کی توضیح و تشریح میں بھی ممد ثابت ہو گی۔