دورِ جدید کی جدید ترقی یافتہ تہذیب کا ایک نمایاں پہلو منظم ریاستوں کا قیام ہے۔ تاہم انسانی تہذیب کی میسر تاریخ کے مطابق انسانی ہمیشہ منظم معاشرے کا باسی نہیں رہا۔ ایک طویل تاریخی سفر کے بعد انسانی معاشرے جدید منظم ریاستی مرحلے تک پہنچا۔ انسان کے شعوری دور کے آغاز کے ساتھ ہی انسانی معاشرے کی تشکیل و تنظیم کی کوشش کا آغاز ہوگیا۔ انیسویں صدی کے اواخیر تک دنیا کے تمام باشندے ریاستوں کے مکیں قرار پائے جبکہ اس سے قبل کرۂ ارض کے کئی حصے یا تو بےنام اور بغیر کسی نظم و اختیار کے تھے یا خانہ بدوش لوگوں کی قیام گاہ تھے۔ آج دو سو سے زائد ریاستیں اقوام متحدہ میں رکنیت کی حامل ہیں۔
انسانی معاشرے کو تہذیب آشنا کرنے کیلئے ہر دور میں انبیاء کرام کا کردار مرکزی و محوری رہا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مبنی بر وحی ہدایت کے اثرات ماند پڑتے گئے اور طاقتور طبقات کے مفادات ہی معاشرے اور ریاست کے نظم و تشکیل کے نمایاں محرکات بن گئے۔ اسلام کی ابتداء ایک ایسے ہی دور میں ہوئی جب پوری دنیا میں کہیں بھی کسی مثالی اور فلاحی ریاست کا وجود نہ تھا جو اعلیٰ انسانی اقدار کی حامل ہو۔ کرۂ ارض عالم انسانیت کے لیے ایک مثالی اور منظم ریاست کے خلا کو محسوس کر رہی تھی جو انسان کے اقدام و خطاء اور ناقص فکر پر مبنی اصولوں سے تشکیل نہ پائی ہو بلکہ اس کی اساس آفاقی اور ابدی اصولوں پر استوار کی گئی ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ نے اس خلا کو فکری اور عملی دونوں سطحوں پر پُر کیا اور عالم انسانیت کو اجتماعی ریاستی سطح پر تنظیم و تہذیب کے لیے ایسے آفاقی اصول و ضوابط عطاء فرمائے جن کی افادیت اور اطلاقی اہمیت سے انسانی تہذیب کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتی۔
ریاست کیا ہے؟ اس کے معانی، مفاہیم، مزاج اور منہج ترکیبی کے فرق کا ادراک اسلام اور دیگر نظام افکار کے دیئے گئے تصور ریاست کے تقابل سے ہو جاتا ہے۔ مغرب میں ریاست کا تصور اپنے پس منظرکے لحاظ سے کلیتاً شخصی رہا۔ لفظ State فی الاصل اس شاہی تخت کے لیے استعمال ہوتا تھا جس پر بادشاہ بیٹھ کر امورِ سلطنت چلاتا تھا۔ پھر بتدریج یہ لفظ بادشاہ اور اس کے ریاستی اختیارات کے لیے استعمال ہونے لگا اور آج کی سیاسی لغت میں یہ لفظ ریاستی ادارے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
اسلام کی قائم کردہ ریاست میں روز اوّل سے کسی شخص کو مقتدر قرار دینے کی بجائے الوہی قانون اور ضوابط کو مقتدر قرار دیا گیا۔ پہلی اسلامی ریاست میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کا اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ کی نیابت تھا۔ افراد اشخاص پر قانون کی برتری کا عملی مظاہرہ خلفائے راشد کا دورِ مبارکہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیرِ نظر تصنیف میں سیرت مبارکہ کا ریاستی تشکیل کے تناظر میں مطالعہ کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے دس سال کے قلیل عرصے میں اتنی بڑی، جامع اور ہمہ گیر کامیابی کس طرح حاصل کی، جس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں اس سے پہلے یا بعد میں نہیں ملتی۔ اس کتاب کے مطالعے سے اس جہت کی وضاحت بھی ہوسکے گی کہ یہ سیرت الرسول ﷺ کے مطابق قیام و استحکام ریاست ہی حتمی کامیابی نہیں بلکہ قیام ریاست، استحکام نظام اور دستور و قانون کی تشکیل و نفاذ کے ساتھ ساتھ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا بھی ہمارے کردار کا حصہ ہونا چاہیے۔ نیز دین و ریاست اور دنیا و آخرت کی وحدت کی عملی صورت کی توضیح بھی اس تصنیف کے مطالعے کا حاصل ہوگا۔